برسوں تک جی کو مار مار رہے رات دن ہم امیدوار رہے موسم گل تلک رہے گا کون چبھتے ہی دل کو خار خار رہے وصل یا ہجر کچھ ٹھہر جاوے دل کو اپنے اگر قرار رہے خوش نوا کیسے کیسے طائر قدس اس جفا پیشہ کے شکار رہے اس کی آنکھوں کی مستی سے عاشق چاہیے یوں کہ ہوشیار رہے دل لگے پر رہا نہیں جاتا رہیے اپنا جو اختیار رہے کم ہے کیا لذت ہم آغوشی سب مزے میرؔ درکنار رہے