بو کہ ہو سوئے باغ نکلے ہے باؤ سے اک دماغ نکلے ہے ہے جو اندھیر شہر میں خورشید دن کو لے کر چراغ نکلے ہے چوب کاری ہی سے رہے گا شیخ اب تو لے کر چماغ نکلے ہے دے ہے جنبش جو واں کی خاک کو باؤ جگر داغ داغ نکلے ہے اس گلی کی زمین تفتہ سے دل جلوں کا سراغ نکلے ہے ہر سحر حادثہ مری خاطر بھر کے خوں کا ایاغ نکلے ہے شاید اس زلف سے لگی ہے میرؔ باؤ میں اک دماغ نکلے ہے