جس کا خوباں خیال لیتے ہیں دل کلیجا نکال لیتے ہیں کیا نظر گاہ ہے کہ شرم سے گل سر گریباں میں ڈال لیتے ہیں دیکھ اسے ہو ملک سے بھی لغزش ہم تو دل کو سنبھال لیتے ہیں کھول کر بال سادہ رو لڑکے خلق کا کیوں وبال لیتے ہیں تیغ کھینچے ہیں جب یہ خوش ظاہر ماہ و خور منہ پہ ڈھال لیتے ہیں دلبراں نقد دل کو عاشق کے جان کر اپنا مال لیتے ہیں ہیں گدا میرؔ بھی ولے دو جہاں کر کے اک ہی سوال لیتے ہیں