جگر خوں کیا چشم نم کر گیا گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا ان آنکھوں کو نرگس لکھا تھا کہیں مرے ہاتھ دونوں قلم کر گیا شب اک شعلہ دل سے ہوا تھا بلند تن زار میرا بھسم کر گیا مرے مزرع زرد پر شکر ہے کل اک ابر آیا کرم کر گیا فقیری میں تھا شیب بار گراں قد راست کو اپنے خم کر گیا نہ اک بار وعدہ وفا کر سکا بہت بار قول و قسم کر گیا بکائے شب و روز اب چھوڑ میرؔ نواح آنکھوں کا تو ورم کر گیا