جہاں پیڑ پر چار دانے لگے ہوا و ہوس کے نشانے لگے ہوئی شام یادوں کے اک گاؤں سے پرندے اداسی کے آنے لگے گھڑی دو گھڑی مجھ کو پلکوں پہ رکھ یہاں آتے آتے زمانے لگے کبھی بستیاں دل کی یوں بھی بسیں دکانیں کھلیں کارخانے لگے وہیں زرد پتوں کا قالین ہے گلوں کے جہاں شامیانے لگے پڑھائی لکھائی کا موسم کہاں کتابوں میں خط آنے جانے لگے