جہاں میں کون ہے جس کو کسی سے الفت ہے
خراب کوچہ و بازار یاں محبت ہے
نفاق خانہ برانداز بسکہ ہے رائج
دل اتفاق کا زیر غبار کلفت ہے
باتفاق اگر دو عزیز مل بیٹھیں
زبان مردم بد سے انھوں پر آفت ہے
کروں میں ہجو اگر روز ایسے عالم کی
بجا ہے ان سے کہ میرے تئیں شکایت ہے
دروغ گوئی سے دو آشنا لڑا دینا
کہاں کی رسم ہے یہ گر یہی مروت ہے
تو چھوڑ شہر کی یہ تنگنا نکل جاویں
کہ گوشہ ہاے بیاباں میں بسکہ وسعت ہے
نہ دیکھوں منھ میں انھوں کا اگر ہوں آئینہ
اسی لیے تو مرے دل نشین عزلت ہے
کہوں میں مطلع ثانی کہ طور یاراں سے
دل شکستہ مرا تنگ اب نہایت ہے
مطلع ثانی
منھوں پہ صاف ہیں لیکن نہ حفظ غیبت ہے
مثال آئینہ دیکھے ہی کی یہ ملت ہے
اگر سخن کی مرے رشک ان کی ہے جاں سوز
وگر دلوں میں انھوں کے غرور دولت ہے
حریف میرے یہ ان باتوں سے نہیں ہوتے
کہ راہ راست پہ ہوں میں انھیں ضلالت ہے
سخن کی خوبی کے میدان کا ہوں میں رستم
مقابلے کو مرے ان میں کس کی طاقت ہے
رہا غرور زر و مال ان کا اب باقی
سو ان کا ہونے کو روکش مری شرافت ہے
بہ خالقے کہ زمیں اور آسماں کی بنا
نظر میں سب کی اسی کا ظہور قدرت ہے
بہ احمدے کہ بلا میم اس کو کہتے ہیں
اسی کی شرق سے لے تا بہ غرب امت ہے
بہ مرتضےٰ کہ پیمبرؐ سے اس کو ہے خویشی
بہ فاطمہ کہ کنیز اس کی ایک عصمت ہے
بہ آں امام کہ قسمت میں اس کی زہر ہوا
بہ آں حسین کہ وہ بیکس شہادت ہے
بہ ذوالفقار کہ وقت نبرد غازی کے
زباں میں نام سے اس کے ہوئی یہ حالت ہے
کہ گر وہ بات کہے صف میں کافروں کی جا
تو سر کو تن پہ خوارج کے کب یہ فرصت ہے
کہ ایک دم میں نہ پیوند ہو جدا اس کا
ملے نہ خاک میں جب تک کہاں فراغت ہے
کہوں میں مطلع ثالث کہے ہے ہاتف غیب
کہ تیرے صدق کی شاہد تری ہی ہمت ہے
مطلع ثالث
بہ زلف یار کہ مجھ پر اسی سے شامت ہے
بہ زہرمار جو جینے میں کچھ حلاوت ہے
بہ ذوق وصل کہ اک دم نہیں ہے مجھ کو قرار
بہ اضطراب کہ وہ خانہ زاد فرقت ہے
بہ سوز شمع کہ جلتی ہے وہ بھی میری طرح
بہ انجمن کہ وہ کثرت میں رشک خلوت ہے
بہ انتظار کہ آنکھیں سفید اس میں ہوئیں
بہ نور شمع کہ وہ پائمال حیرت ہے
بہ طوف کعبہ کہ بے سعی واں نہیں ہے گذار
بہ عشق دیر کہ واں برہمن سعادت ہے
بہ غربتے کہ ہے دوری راہ اس میں رفیق
بہ منزلے کہ پہنچنا وہاں قیامت ہے
بہ طاقتے کہ اسے ضعف سے ہے ربط قدیم
بہ خاطرے کہ وہ منت کش مصیبت ہے
بہ مشہدے کہ چراغ اس کا چشم آہو ہو
بہ چشمکے کہ وہ خوں ریز اہل حسرت ہے
بہ ہمتے کہ نہ دیکھا ہو ان نے خست کو
بہ خستے کہ سراپا عدوے ہمت ہے
بہ زورقے کہ جو وہ نوح کی پناہ ہوئی
بہ ملتے کہ وہ طوفاں سے غرق خجلت ہے
بہ محنتے کہ وہ آزردہ ہوئے راحت سے
بہ راحتے کہ حقیقت میں رنج و محنت ہے
بہ عزتے کہ جو سنتی ہو نام ذلت کا
بہ ذلتے کہ وہ کہتی ہو کیسی عزت ہے
قسم ہے میرے تئیں ان تمام قسموں کی
جو میں نے کچھ بھی کہا ہو یہ مجھ پہ تہمت ہے
جو کچھ کہا ہے کنھوں نے غلط کہا ہے گا
کسو سے رنجش بیجا نہ میری طینت ہے
اگر یہ عذر ہو مقبول تو تو خیر ارنہ
حریف ہونے کا میرے نتیجہ خفت ہے
کہاں تلک میں کروں اس نفاق کا شکوہ
خموشی اب تو ہے اولیٰ کہ اس میں راحت ہے
میر تقی میر