Iztirab

Iztirab

آئینہ در آئینہ

اس بار وہ ملا تو عجب اس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خط میں تھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروف جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تمہیں کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمر رواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتا رہتا تو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایتؔ علی تھا وہ
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *