Iztirab

Iztirab

آج کی باتیں کل کے سپنے

جب بھی تنہا مجھے پاتے ہیں گزرتے لمحے 
تیری تصویر سی راہوں میں بچھا جاتے ہیں 
میں کہ راہوں میں بھٹکتا ہی چلا جاتا ہوں 
مجھ کو خود میری نگاہوں سے چھپا جاتے ہیں 

میرے بے چین خیالوں پہ ابھرنے والی 
اپنے خوابوں سے نہ بہلا میری تنہائی کو 
جب تری سانس مری سانس میں تحلیل نہیں 
کیا کریں گی مری بانہیں تیری انگڑائی کو 

جب خیالوں میں ترے جسم کو چھو لیتا ہوں 
زندگی شعلۂ ماضی سے جھلس جاتی ہے 
جب گزرنا ہوں غم حال کے ویرانے سے 
میرے احساس کی ناگن مجھے ڈس جاتی ہے 

ہم سفر تجھ کو کہوں یا تجھے رہزن سمجھوں 
راہ میں لا کے مجھے چھوڑ دیا ہے تو نے 
ایک وہ دن کہ ترا پیار بسا تھا دل میں 
ایک یہ وقت کہ دل توڑ دیا ہے تو نے 

ماضی و حال کی تفریق وہ قربت یہ فراق 
پیار گلشن سے چلا آیا ہے زندانوں میں 
بے زری اپنی صداقت کو پرکھتی ہی رہی 
تل گیا حسن زر و سیم کی میزانوں میں 

غیر سے ریشم و کمخواب کی راحت پا کر 
تو مجھے یاد بھی آئے گی تو کیا آئے گی 
ایک مستقبل زریں کی تجارت کے لیے 
تو محبت کے تقدس کو بھی ٹھکرائے گی 

اور میں پیار کی تقدیس پہ مرنے والا 
درد بن کر ترے احساس میں بس جاؤں گا 
وقت آئے گا تو اخلاص کا بادل بن کر 
تیری جھلسی ہوئی راتوں پہ برس جاؤں گا 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *