Iztirab

Iztirab

آج کی دنیا

دنیا کو انقلاب کی یاد آ رہی ہے آج 
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے آج 
وہ سر اٹھائے موج فنا آ رہی ہے آج 
موج حیات موت سے ٹکرا رہی ہے آج 
کانوں میں زلزلوں کی دھمک آ رہی ہے آج 
ہر چیز کائنات کی تھرا رہی ہے آج 
جھپکا رہی ہے دیر سے آنکھیں ہوائے دہر 
کون و مکاں کو نیند سی کچھ آ رہی ہے آج 
ہر لفظ کے معانی و مطلب بدل چکے 
ہر بات اور بات ہوئی جا رہی ہے آج 
یکسر جہان حسن بھی بدلا ہوا سا ہے 
دنیائے عشق اور نظر آ رہی ہے آج 
ہر ہر شکست ساز میں ہے لحن سرمدی 
یا زندگی کے گیت اجل گا رہی ہے آج 
یہ دامن اجل ہے کہ تحریک غیب ہے 
کیا شے ہوائے دہر کو سنکا رہی ہے آج 
ابنائے دہر لیتے ہیں یوں سانس گرم و تیز 
جینے میں جیسے دیر ہوئی جا رہی ہے آج 
افلاک کی جبیں بھی شکن در شکن سی ہے 
تیوری زمین کی بھی چڑھی جا رہی ہے آج 
پھر چھیڑتی ہے موت حیات فسردہ کو 
پھر آتش خموش کو اکسا رہی ہے آج 
برہم سا کچھ مزاج عناصر ہے ان دنوں 
اور کچھ طبیعت اپنی بھی گھبرا رہی ہے آج 
اک موج دود سینے میں لرزاں ہے اس طرح 
ناگن سی جیسے شیشے میں لہرا رہی ہے آج 
بیتے جگوں کی چھاؤں ہے امروز پر فراقؔ 
ہر چیز اک فسانہ ہوئی جا رہی ہے آج 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *