Iztirab

Iztirab

آخری رات

چاند ٹوٹا پگھل گئے تارے 
قطرہ قطرہ ٹپک رہی ہے رات 
پلکیں آنکھوں پہ جھکتی آتی ہیں 
انکھڑیوں میں کھٹک رہی ہے رات 
آج چھیڑو نہ کوئی افسانہ 
آج کی رات ہم کو سونے دو 

کھلتے جاتے ہیں سمٹے سکڑے جال 
گھلتے جاتے ہیں خون میں بادل 
اپنے گلنار پنکھ پھیلائے 
آ رہے ہیں اسی طرف جنگل 
گل کرو شمع، رکھ دو پیمانہ 
آج کی رات ہم کو سونے دو 

شام سے پہلے مر چکا تھا شہر 
کون دروازہ کھٹکھٹاتا ہے 
اور اونچی کرو یہ دیواریں 
شور آنگن میں آیا جاتا ہے 
کہہ دو ہے آج بند مے خانہ 
آج کی رات ہم کو سونے دو 

جسم ہی جسم ہیں، کفن ہی کفن 
بات سنتے نہ سر جھکاتے ہیں 
امن کی خیر، کوتوال کی خیر 
مردے قبروں سے نکلے آتے ہیں 
کوئی اپنا نہ کوئی بیگانہ 
آج کی رات ہم کو سونے دو 

کوئی کہتا تھا، ٹھیک کہتا تھا 
سرکشی بن گئی ہے سب کا شعار 
قتل پر جن کو اعتراض نہ تھا 
دفن ہونے کو کیوں نہیں تیار 
ہوشمندی ہے آج سو جانا 
آج کی رات ہم کو سونے دو 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *