Iztirab

Iztirab

آخری ملاقات

مت روکو انہیں پاس آنے دو 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

دو پاؤں بنے ہریالی پر 
ایک تتلی بیٹھی ڈالی پر 
کچھ جگمگ جگنو جنگل سے 
کچھ جھومتے ہاتھی بادل سے 
یہ ایک کہانی نیند بھری 
اک تخت پہ بیٹھی ایک پری 
کچھ گن گن کرتے پروانے 
دو ننھے ننھے دستانے 
کچھ اڑتے رنگیں غبارے 
ببو کے دوپٹے کے تارے 
یہ چہرہ بنو بوڑھی کا 
یہ ٹکڑا ماں کی چوڑی کا 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

السائی ہوئی رت ساون کی 
کچھ سوندھی خوشبو آنگن کی 
کچھ ٹوٹی رسی جھولے کی 
اک چوٹ کسکتی کولھے کی 
سلگی سی انگیٹھی جاڑوں میں 
اک چہرہ کتنی آڑوں میں 
کچھ چاندنی راتیں گرمی کی 
اک لب پر باتیں نرمی کی 
کچھ روپ حسیں کاشانوں کا 
کچھ رنگ ہرے میدانوں کا 
کچھ ہار مہکتی کلیوں کے 
کچھ نام وطن کی گلیوں کے 
مت روکو انہیں پاس آنے دو 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

کچھ چاند چمکتے گالوں کے 
کچھ بھونرے کالے بالوں کے 
کچھ نازک شکنیں آنچل کی 
کچھ نرم لکیریں کاجل کی 
اک کھوئی کڑی افسانوں کی 
دو آنکھیں روشن دانوں کی 
اک سرخ دلائی گوٹ لگی 
کیا جانے کب کی چوٹ لگی 
اک چھلا پھیکی رنگت کا 
اک لاکٹ دل کی صورت کا 
رومال کئی ریشم سے کڑھے 
وہ خط جو کبھی میں نے نہ پڑھے 
مت روکو انہیں پاس آنے دو 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

کچھ اجڑی مانگیں شاموں کی 
آواز شکستہ جاموں کی 
کچھ ٹکڑے خالی بوتل کے 
کچھ گھنگرو ٹوٹی پائل کے 
کچھ بکھرے تنکے چلمن کے 
کچھ پرزے اپنے دامن کے 
یہ تارے کچھ تھرائے ہوئے 
یہ گیت کبھی کے گائے ہوئے 
کچھ شعر پرانی غزلوں کے 
عنوان ادھوری نظموں کے 
ٹوٹی ہوئی اک اشکوں کی لڑی 
اک خشک قلم اک بند گھڑی 
مت روکو انہیں پاس آنے دو 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

کچھ رشتے ٹوٹے ٹوٹے سے 
کچھ ساتھی چھوٹے چھوٹے سے 
کچھ بگڑی بگڑی تصویریں 
کچھ دھندلی دھندلی تحریریں 
کچھ آنسو چھلکے چھلکے سے 
کچھ موتی ڈھلکے ڈھلکے سے 
کچھ نقش یہ حیراں حیراں سے 
کچھ عکس یہ لرزاں لرزاں سے 
کچھ اجڑی اجڑی دنیا میں 
کچھ بھٹکی بھٹکی آشائیں 
کچھ بکھرے بکھرے سپنے ہیں 
یہ غیر نہیں سب اپنے ہیں 
مت روکو انہیں پاس آنے دو 
یہ مجھ سے ملنے آئے ہیں 
میں خود نہ جنہیں پہچان سکوں 
کچھ اتنے دھندلے سائے ہیں 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *