Iztirab

Iztirab

آدمی

تھا کبھی علم آدمی دل آدمی پیار آدمی 
آج کل زر آدمی قصر آدمی کار آدمی 

کلبلاتی بستیاں مشکل سے دو چار آدمی 
کتنا کم یاب آدمی ہے کتنا بسیار آدمی 

پتلی گردن پتلے ابرو پتلے لب پتلی کمر 
جتنا بیمار آدمی اتنا طرحدار آدمی 

زندگی نیچے کہیں منہ دیکھتی ہی رہ گئی 
کتنا اونچا لے گیا جینے کا معیار آدمی 

عمر بھر صحرا نوردی کی مگر شادی نہ کی 
قیس دیوانہ بھی تھا کتنا سمجھ دار آدمی 

دانش و حکمت کی ساری روشنی کے باوجود 
کم ہی ملتا ہے زمانے میں کم آزار آدمی 

دل رہیں ہیں صومعۂ دستار رہن میکدہ 
تھا ضمیر جعفریؔ بھی اک مزے دار آدمی 

پہلے کشتی ڈوب جاتی تھی نظر کے سامنے 
اب گرے گا بحر اوقیانوس کے بار آدمی 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *