Iztirab

Iztirab

آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے

آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے 
اس فضا میں امید وفا جرم ہے 
ہر طرف ہیں محبت کی مجبوریاں 
ابتدا جرم ہے انتہا جرم ہے 
ذوق‌ دیدار پر لاکھ پابندیاں 
دیکھ کر پھر انہیں دیکھنا جرم ہے 
زندگی بھر کی نیندیں اچٹ جائیں گی 
سایۂ زلف میں بیٹھنا جرم ہے 
ہر سزا کو کسی کی عطا مانئے 
یہ بھی کیوں پوچھئے کون سا جرم ہے 
آنکھ اٹھا کر انہیں دیکھیے کس طرح 
سر اٹھانے کا بھی حوصلہ جرم ہے 
ان کے جلووں کا جب سامنا ہو گیا 
پھر کسی اور کا سامنا جرم ہے 
خامشی بھی سلیقہ ہے فریاد کا 
ان کے جور و ستم پر گلا جرم ہے 
ایسے ماحول میں آ گئے ہم جہاں 
اپنے ماحول کا جائزہ جرم ہے 
مسلک عشق ہے پیروی وفا 
حکمت و مصلحت سوچنا جرم ہے 
آگہی شرط ہے گمرہی کے لئے 
گمرہی پر پتا پوچھنا جرم ہے 
دعوئ عشق ہے جرم اول اگر 
انحراف وفا دوسرا جرم ہے 
ان کی شان کرم کہہ رہی ہے رشیؔ 
ان سے اب کوئی بھی التجا جرم ہے 

رشی پٹیالوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *