Iztirab

Iztirab

آرزو ہے وفا کرے کوئی

آرزو ہے وفا کرے کوئی 
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی 
گر مرض ہو دوا کرے کوئی 
مرنے والے کا کیا کرے کوئی 
کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا 
اپنے حق میں دعا کرے کوئی 
ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں 
میرا مطلب ادا کرے کوئی
چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے 
مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی 
اس گلے کو گلہ نہیں کہتے 
گر مزے کا گلا کرے کوئی
یہ ملی داد رنج فرقت کی 
اور دل کا کہا کرے کوئی 
تم سراپا ہو صورت تصویر 
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی 
کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم 
کیوں ہماری خطا کرے کوئی 
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں 
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی
اس جفا پر تمہیں تمنا ہے 
کہ مری التجا کرے کوئی 
منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا 
.لطف ہے پھر جفا کرے کوئی

داغ دہلوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *