ذرا دیکھو تو ماں پیڑوں پہ چڑیاں خوشی کے گیت کیسے گا رہی ہیں بتاؤ کب تک آئے گا وہ دن ماں کہ میں گاؤں گا آزادی کے نغمے مرے بیٹے نہ ہو مایوس ہرگز ندی جیسے پہاڑوں سے اتر کر سمندر کی طرف چلتی ہے سرمست کہ مکھی شہد کی جیسے دم شام پلٹتی ہے تو چھتے ہی کی جانب بہت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اسے روکے بھلا کس میں ہے طاقت اسے ٹوکے بھلا کس میں ہے جرأت مرے بیٹے یقیں کر ایک دن تو اسی چڑیا کی صورت ہوگا آزاد قفس کی تیلیاں ٹوٹیں گی اک دن فضائیں قید سے چھوٹیں گی اک دن نئی منزل کی خاطر میرے جانباز کسی تازہ سفر کا ہوگا آغاز
شمیم کرہانی