Iztirab

Iztirab

آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے

آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے 
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے 
میری نظروں میں حشر بھی کیا ہے 
میں نے ان کا جلال دیکھا ہے 
جلوۂ طور خواب موسیٰ ہے 
کس نے دیکھا ہے کس کو دیکھا ہے 
ہائے انجام اس سفینے کا 
ناخدا نے جسے ڈبویا ہے 
آہ کیا دل میں اب لہو بھی نہیں 
آج اشکوں کا رنگ پھیکا ہے 
جب بھی آنکھیں ملیں ان آنکھوں سے 
دل نے دل کا مزاج پوچھا ہے 
وہ جوانی کہ تھی حریف طرب 
آج برباد جام و صہبا ہے 
کون اٹھ کر چلا مقابل سے 
جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے 
پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک 
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے 
سچ تو یہ ہے مجازؔ کی دنیا 
حسن اور عشق کے سوا کیا ہے 

اسرار الحق مجاز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *