Iztirab

Iztirab

آمادگی

ایک اک اینٹ گری پڑی ہے
سب دیواریں کانپ رہی ہیں
ان تھک کوششیں معماروں کی
سر کو تھامے ہانپ رہی ہیں
موٹے موٹے شہتیروں کا
ریشہ ریشہ چھوٹ گیا ہے
بھاری بھاری جامد پتھر
ایک اک کر کے ٹوٹ گیا ہے
لوہے کی زنجیریں گل کر
اب ہمت ہی چھوڑ چکی ہیں
حلقہ حلقہ چھوٹ گیا ہے
بندش بندش توڑ چکی ہیں
چونے کی اک پتلی سی تہ
گرتے گرتے بیٹھ گئی ہے
نبضیں چھوٹ گئیں مٹی کی
مٹی سے سر جوڑ رہی ہے
سب کچھ ڈھیر ہے اب مٹی کا
تصویریں وہ دل کش نقشے
پہچانو تو رو دو گی تم
گھر میں ہوں باہر ہوں گھر سے
اب آؤ تو رکھا کیا ہے
چشمے سارے سوکھ گئے ہیں
یوں چاہو تو آ سکتی ہو
میں نے آنسو پونچھ لیے ہیں
اختر الایمان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *