Iztirab

Iztirab

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے 
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے 
حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے 
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے 
چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے 
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے 
رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے 
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے 
میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق 
مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے 
سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی 
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے 
اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں 
میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے 
ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے 
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے 
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے 
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے 
آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے 
سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے 
اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں 
کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے 
شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول 
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے 
لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ 
.جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے

جگر مراد آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *