Iztirab

Iztirab

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے 
اک شرح حیات ہو گئی ہے 
جب دل کی وفات ہو گئی ہے 
ہر چیز کی رات ہو گئی ہے 
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو 
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے 
مدت سے خبر ملی نہ دل کی 
شاید کوئی بات ہو گئی ہے 
جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری 
تصویر حیات ہو گئی ہے 
اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صبح 
ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے 
دل میں تجھ سے تھی جو شکایت 
اب غم کے نکات ہو گئی ہے 
اقرار گناہ عشق سن لو 
مجھ سے اک بات ہو گئی ہے 
جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی 
تیری سوغات ہو گئی ہے 
کیا جانیے موت پہلے کیا تھی 
اب میری حیات ہو گئی ہے 
گھٹتے گھٹتے تری عنایت 
میری اوقات ہو گئی ہے 
اس چشم سیہ کی یاد یکسر 
شام ظلمات ہو گئی ہے 
اس دور میں زندگی بشر کی 
بیمار کی رات ہو گئی ہے 
جیتی ہوئی بازیٔ محبت 
کھیلا ہوں تو مات ہو گئی ہے 
مٹنے لگیں زندگی کی قدریں 
جب غم سے نجات ہو گئی ہے 
وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے 
جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے 
دنیا ہے کتنی بے ٹھکانہ 
عاشق کی برات ہو گئی ہے 
پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی 
اب برق صفات ہو گئی ہے 
جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے 
اک برگ نبات ہو گئی ہے 
اکا دکا صدائے زنجیر 
زنداں میں رات ہو گئی ہے 
ایک ایک صفت فراقؔ اس کی 
دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے 

فراق گورکھپوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *