Iztirab

Iztirab

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں

آواز کے ہم راہ سراپا بھی تو دیکھوں 
اے جان سخن میں تیرا چہرہ بھی تو دیکھوں 
دستک تو کچھ ایسی ہے کہ دل چھونے لگی ہے 
اس حبس میں بارش کا یہ جھونکا بھی تو دیکھوں 
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئیں آنکھیں 
دکھ کہتا ہے میں اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں 
یہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے 
اپنے لئے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں 
اب تک تو مرے شعر حوالہ رہے تیرا 
اب میں تری رسوائی کا چرچا بھی تو دیکھوں 
اب تک جو سراب آئے تھے انجانے میں آئے 
.پہچانے ہوئے رستوں کا دھوکا بھی تو دیکھوں

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *