Iztirab

Iztirab

آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی

آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی
ایسے پانی کو میں ہرگز نہ کہوں گا پانی
نہ رہے آنکھ میں بھی دل سے نکل کر آنسو
جا بجا ان کو لیے پھرتا ہے دانا پانی
حال پوچھو نہ مرے گریہ غم کا مجھ سے
اس کے کہنے سے بھی ہوتا ہے کلیجا پانی
سوز غم ہی سے مری آنکھ میں آنسو آئے
سوچتا ہوں کہ اسے آگ کہوں یا پانی
ترک مے خانہ گوارا نہ کروں گا ہرگز
راس ہے میری طبیعت کو یہاں کا پانی
کر دیا سب کو ترے تیر نظر نے سیراب
جس کے سینے پہ لگا اس نے نہ مانگا پانی
عیش دم بھر کا بھی دیکھا نہیں جاتا اس سے
چرخ کم بخت کی آنکھوں میں نہ اترا پانی
تیرے ہی جلوے سے ہے باغ تمنا کی بہار
یہی تنویر ہے آئینہ دل کا پانی
خلش غم سے کئے جاؤں کہاں تک نالے
میری قسمت میں تو ہر روز یہ ایذا پانی
ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں
میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی
ضبط گریہ سے بڑھی اور مصیبت اے جوشؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اب سر سے ہے اونچا پانی

جوش ملسیانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *