Iztirab

Iztirab

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
میں خود ہی سر منزل شب چیخ پڑا تھا
لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں
میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا
تو نے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں  ، ورنہ
میں فکر کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا تھا
اب اس کے سوا یاد نہیں جشن ملاقات
اک ماتمی جگنو مری پلکوں پہ سجا تھا
یا بارش سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی
یا پھر میں ترے شہر رہ بھول گیا تھا
اک جلوہ محجوب سے روشن تھا مرا ذہن
وجدان یہ کہتا ہے وہی میرا خدا تھا
ویراں نہ ہو اس درجہ کوئی موسم گل بھی
کہتے ہیں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا
اک تو کہ گرایزاں ہی رہا مجھ سے بہر طور
اک میں ترے نقش قدم چوم رہا تھا
دیکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر
.محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا

محسن نقوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *