Iztirab

Iztirab

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے

ابتدائے عشق ہے لطف شباب آنے کو ہے
صبر رخصت ہو رہا ہے اضطراب آنے کو ہے
قبر پر کس شان سے وہ بے نقاب آنے کو ہے
آفتاب صبح محشر ہم رکاب آنے کو ہے
مجھ تک اس محفل میں پھر جام شراب آنے کو ہے
عمر رفتہ پلٹی آتی ہے شباب آنے کو ہے
ہائے کیسی کشمکش ہے یاس بھی ہے آس بھی
دم نکل جانے کو ہے خط کا جواب آنے کو ہے
خط کے پرزے نامہ بر کی لاش کے ہم راہ ہیں
کس ڈھٹائی سے مرے خط کا جواب آنے کو ہے
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر
کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے
بھر کے ساقی جام مے اک اور لا اور جلد لا
ان نشیلی انکھڑیوں میں پھر حجاب آنے کو ہے
خانۂ تصویر میں آنے کو ہے تصویر یار
آئنے میں قد آدم آفتاب آنے کو ہے
پھر حنائی ہونے والے ہیں مرے قاتل کے ہاتھ
پھر زبان تیغ پر رنگ شہاب آنے کو ہے
گدگداتا ہے تصور چٹکیاں لیتا ہے درد
کیا کسی بے خواب کی آنکھوں میں خواب آنے کو ہے
دیکھیے موت آئے فانیؔ یا کوئی فتنہ اٹھے
میرے قابو میں دل بے صبر و تاب آنے کو ہے

فانی بدایونی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *