Iztirab

Iztirab

ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے

ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے
بہار باقی ہے زخم بہار باقی ہے
یہ انتظار کی گھڑیاں کنار جوئے چشم
امید ڈوب چکی اعتبار باقی ہے
تمہارے رخ پہ ہیں کچھ اجنبی نظر کے نشاں
تمہارے ابرو پہ ہلکا سا بار باقی ہے
سنا ہے ہند کی شاداب وادیوں میں رفیق
بہار آ بھی چکی ہے بہار باقی ہے
عجب نہیں ہے کہ شبنم سے موت ہو جائے
گلوں کی تشنہ لبی بے شمار باقی ہے
طلسم غیر نہیں تار عنکبوت سے کم
ہزار ٹوٹ چکا ہے ہزار باقی ہے
مری بہار کی آسودگی میں اے مسعودؔ
سنا ہے تو ہی فقط بے قرار باقی ہے
مسعود حسین خان

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *