Iztirab

Iztirab

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی 
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی 
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو 
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی 
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا 
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی 
دیا پہنچا نہیں تھا آگ پہنچی تھی گھروں تک 
پھر ایسی آگ جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی 
نکل جاتے تھے سر پر بے سر و سامانی لادے 
بھری لگتی تھی گٹھری اور بھری ہوتی نہیں تھی 
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا 
شب ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی 
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں یہیں ہیں 
کہ جب موجودگی موجودگی ہوتی نہیں تھی 
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے 
جو شے درکار ہوتی تھی وہی ہوتی نہیں تھی 
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے 
ہمارا وقت اچھا تھا گھڑی ہوتی نہیں تھی 

شاہین عباس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *