Iztirab

Iztirab

اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو

اب بتاؤ جائے گی زندگی کہاں یارو
پھر ہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو
اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
پھول ہیں کہ لاشیں ہیں باغ ہے کہ مقتل ہے
شاخ شاخ ہوتا ہے دار کا گماں یارو
موت سے گزر کر یہ کیسی زندگی پائی
فکر پا بہ جولاں ہے گنگ ہے زباں یارو
تربتوں کی شمعیں ہیں اور گہری خاموشی
جا رہے تھے کس جانب آ گئے کہاں یارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میر کارواں یارو میر کارواں یارو
صرف زندہ رہنے کو زندگی نہیں کہتے
کچھ غم محبت ہو کچھ غم جہاں یارو
وقت کا تقاضا تو اور بھی ہے کچھ لیکن
کچھ نہیں تو ہو جاؤ میرے ہم زباں یارو
ایک میں ہوں جس کو تم مانتے نہیں شاعرؔ
اور ایک میں ہی ہوں تم میں نکتہ داں یارو
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *