Iztirab

Iztirab

اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی

اب تو شہروں سے خبر آتی ہے دیوانوں کی 
کوئی پہچان ہی باقی نہیں ویرانوں کی 
اپنی پوشاک سے ہشیار کہ خدام قدیم 
دھجیاں مانگتے ہیں اپنے گریبانوں کی 
صنعتیں پھیلتی جاتی ہیں مگر اس کے ساتھ 
سرحدیں ٹوٹتی جاتی ہیں گلستانوں کی 
دل میں وہ زخم کھلے ہیں کہ چمن کیا شے ہے 
گھر میں بارات سی اتری ہوئی گل دانوں کی 
ان کو کیا فکر کہ میں پار لگا یا ڈوبا 
بحث کرتے رہے ساحل پہ جو طوفانوں کی 
تیری رحمت تو مسلم ہے مگر یہ تو بتا 
کون بجلی کو خبر دیتا ہے کاشانوں کی 
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے مکانوں سے بلند 
کس قدر اوج پہ تکریم ہے انسانوں کی 
ایک اک یاد کے ہاتھوں پہ چراغوں بھرے طشت 
کعبۂ دل کی فضا ہے کہ صنم خانوں کی 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *