Iztirab

Iztirab

اب کس کا جشن مناتے ہو

اب کس کا جشن مناتے ہو اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کے گیت سناتے ہو اس تن من کا جو دونیم ہوا
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑا ٹکڑا گلیوں میں بے توقیر ہوا
اس پرچم کا جس کی حرمت بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت منسوب عدو کے نام ہوئی
اس جنگ کو جو تم ہار چکے اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا، اس جان کا جو واری بھی نہیں
اس خون کا جو بدقسمت تھا راہوں میں بہا یا تن میں رہا
اس پھول کا جو بے قیمت تھا آنگن میں کھلا یا بن میں رہا
اس مشرق کا جس کو تم نے نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
ان معصوموں کا جن کے لہو سے تم نے فروزاں راتیں کیں
یا ان مظلوموں کا جس سے خنجر کی زباں میں باتیں کیں
اس مریم کا جس کی عفت لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسیٰ کا جو قاتل ہے اور شامل ہے غم خواروں میں
ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
ان بھوکے ننگے ڈھانچوں کا جو رقص سر بازار کریں
یا ان ظالم قزاقوں کا جو بھیس بدل کر وار کریں
یا ان جھوٹے اقراروں کا جو آج تلک ایفا نہ ہوئے
یا ان بے بس لاچاروں کا جو اور بھی دکھ کا نشانہ ہوئے
اس شاہی کا جو دست بدست آئی ہے تمہارے حصے میں
کیوں ننگ وطن کی بات کرو کیا رکھا ہے اس قصے میں
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو ہونٹوں میں وفا کے بول لیے
.اس جشن میں میں بھی شامل ہوں نوحوں سے بھرا کشکول لیے

احمد فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *