Iztirab

Iztirab

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کہ چل

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کہ چل 
دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کہ چل 
کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ 
مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کہ چل 
فرصت ہے اِک صدا کی یہاں سوز دل کہ ساتھ 
اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کہ چل 
یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما 
سائے سے بچ کہ اہل فریب و دغل کہ چل 
اوروں کہ بل پہ بل نہ کر اتنا نہ چل نکل 
بل ہے تو بل کہ بل پہ تو کچھ اپنے بل کہ چل 
انساں کو کل کا پتلا بنایا ہے اس نے آپ 
اور آپ ہی وہ کہتا ہے ، پتلے کو کل کے چل 
پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں کے رکھ دیکھ کر قدم 
کہتا ہے کون تُجھ کو نہ چل چل سنبھل کہ چل 
ہے طرفہ امن گاہ نہاں خانۂ عدم 
آنکھوں کےہروبرو سے تو لوگوں کے ٹل کہ چل 
کیا چل سکے گا ہم سے کے پہچانتے ہیں ہم 
تو لاکھ اپنی چال کو ظالم بدل کہ چل 
ہے شمع سر کہ بل جو محبت میں گرم ہو 
پروانہ اپنے دل سے یہ کہتا ہے جل کہ چل 
بلبل کہ ہوش نکہت گل کی طرح اڑا 
گلشن میں مرے ساتھ ذرا عطر مل کہ چل 
گر قصد سوئے دل ہے تیرا اے نگاہ یار 
دُو چار تیر پیک سے آگے اجل کہ چل 
جُو امتحان طبع کرے اپنا اے ظفرؔ 
.تُو کہہ دو اس کو طور پہ تُو اِس غزل کہ چل 

بہادر شاہ ظفر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *