Iztirab

Iztirab

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا 
رنج راحت فزا نہیں ہوتا 
بے وفا کہنے کی شکایت ہے 
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا 
ذکر اغیار سے ہوا معلوم 
حرف ناصح برا نہیں ہوتا 
کس کو ہے ذوق تلخ کامی لیک 
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا 
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے 
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا 
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر 
دل کسی کام کا نہیں ہوتا 
امتحاں کیجیے مرا جب تک 
شوق زور آزما نہیں ہوتا 
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے 
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا 
آہ طول امل ہے روز فزوں 
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا 
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا 
حال دل یار کو لکھوں کیوں کر 
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم جان غیر نہ ہو 
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا 
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو 
دست عاشق رسا نہیں ہوتا 
چارہ دل سوائے صبر نہیں 
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا 
کیوں سنے عرض مضطر مومنؔ 
.صنم آخر خدا نہیں ہوتا

مومن خان مومن

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *