Iztirab

Iztirab

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا

اثر کے پیچھے دل حزیں نے نشان چھوڑا نہ پھر کہیں کا 
گئے ہیں نالے جو سوئے گردوں تو اشک نے رخ کیا زمیں کا 
بھلی تھی تقدیر یا بری تھی یہ راز کس طرح سے عیاں ہو 
بتوں کو سجدے کئے ہیں اتنے کہ مٹ گیا سب لکھا جبیں کا 
وہی لڑکپن کی شوخیاں ہیں وہ اگلی ہی سہی شرارتیں ہیں 
سیانے ہوں گے تو ہاں بھی ہوگی ابھی تو سن ہے نہیں نہیں کا 
یہ نظم آئیں یہ طرز بندش سخنوری ہے فسوں گری ہے 
.کہ ریختہ میں بھی تیرے شبلیؔ مزہ ہے طرز علی حزیں کا

علامہ شبلی نعمانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *