اداسی چھا گئی چہرے پہ شمع محفل کے نسیم صبح سے شعلے بھڑک اٹھے دل کے شریک حال نہیں ہے کوئی تو کیا پروا دلیل راہ محبت ہیں ولولے دل کے عجب نہیں کہ بپا ہو یہیں سے فتنۂ حشر زمانے بھر میں ہیں سارے فساد اسی دل کے نہ سنگ میل نہ نقش قدم نہ بانگ جرس بھٹک نہ جائیں مسافر عدم کی منزل کے خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں رکھتے جب آئے قافلے والے قریب منزل کے نظارۂ رخ لیلی مبارک اے مجنوں نگاہ شوق نے پردے اٹھائے محمل کے مشاہدے کو اک آئینہ جمال دیا کمال عشق نے جوہر دکھا دئے دل کے زبان یاس سے افسانہ سحر سنیے وہ رونا شمع کا پروانوں سے گلے مل کے
یگانہ چنگیزی