Iztirab

Iztirab

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے

اداس کاغذی موسم میں رنگ و بو رکھ دے
ہر ایک پھول کے لب پر مرا لہو رکھ دے
زبان گل سے چٹانیں تراشنے والے
نگار و نقش میں آسائش نمو رکھ دے
سنا ہے اہل خرد پھر چمن سجائیں گے
جنوں بھی جیب و گریباں پئے رفو رکھ دے
شفق ہے پھول ہے دیپک ہے چاند بھی ہے مگر
انہیں کے ساتھ کہیں ساغر و سبو رکھ دے
چلا ہے جانب مے خانہ آج پھر واعظ
کہیں نہ جام پہ لب اپنے بے وضو رکھ دے
تمام شہر کو اپنی طرف جھکا لوں گا
غم حبیب مرے سر پہ ہاتھ تو رکھ دے
گراں لگے ہے جو احسان دست قاتل کا
اٹھ اور تیغ کے لب پر رگ گلو رکھ دے
خدا کرے مرا منصف سزا سنانے پر
مرا ہی سر مرے قاتل کے روبرو رکھ دے
سمندروں نے بلایا ہے تجھ کو اے بیکلؔ
تو اپنی پیاس کی صحرا میں آبرو رکھ دے
بیکل اتساہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *