Iztirab

Iztirab

ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا

ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا
نہ جانے سہو قلم ہے کہ شاہکار قلم
بلائے حسن نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا
نگاہ ڈال دی جس پر وہ ہو گیا اندھا
نظر نے رنگ تصرف دکھائے ہیں کیا کیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
گزر کے آپ سے ہم آپ تک پہنچ تو گئے
مگر خبر بھی ہے کچھ پھیر کھائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
خوشی میں اپنے قدم چوم لوں تو زیبا ہے
وہ لغزشوں پہ مری مسکرائے ہیں کیا کیا
خدا ہی جانے یگانہؔ میں کون ہوں کیا ہوں
خود اپنی ذات پہ شک دل میں آئے ہیں کیا کیا

یگانہ چنگیزی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *