Iztirab

Iztirab

ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں

ادھر سے جھانکتے ہیں گہہ ادھر سے دیکھ لیتے ہیں 
غرض ہم اس کی صورت سو ہنر سے دیکھ لیتے ہیں 
کیا ہے بخت نے جس دن سے ہم کو اس کا ہم سایہ 
ہم اس رشک پری کو اپنے گھر سے دیکھ لیتے ہیں 
جو ہو جاتے ہیں دیوانے ترے اتنے نقابوں پر 
خدا جانے کہ وہ تجھ کو کدھر سے دیکھ لیتے ہیں 
ہمیں گریہ سے وہ فرصت کہاں جو خال و خط دیکھیں 
مگر نقشہ ترا اس چشم تر سے دیکھ لیتے ہیں 
ہمارے دیکھنے سے کیوں خفا ہوتا ہے اے ظالم 
ترا لیتے ہیں کیا ٹک اک نظر سے دیکھ لیتے ہیں 
ہمیں اس کو میں رہنے کا نہیں کچھ اور تو حاصل 
پر اتنا ہے کہ گاہے چاک در سے دیکھ لیتے ہیں 
لگیں ہیں دیکھنے جب مصحفیؔ ہم اس کے کوچے میں 
ٹک اک پھر کر بھی رسوائی کے ڈر سے دیکھ لیتے ہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *