Iztirab

Iztirab

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم

اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم 
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم 
کیا پوچھتے ہو جھومتے آئے کہاں سے ہم 
پی کر اٹھے ہیں خمکدۂ آسماں سے ہم 
کیوں کر ہوا ہے فاش زمانہ پہ کیا کہیں 
وہ راز دل جو کہہ نہ سکے راز داں سے ہم 
ہمدم یہی ہے رہ گزر یار خوش خرام 
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم 
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے 
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم 
ہر نرگس جمیل نے مخمور کر دیا 
پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم 
ٹھکرا دیئے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے 
گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم 
دیکھیں گے ہم بھی کون ہے سجدہ طراز شوق 
لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم 
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ 
ڈرتے نہیں سیاست اہل جہاں سے ہم 

اسرار الحق مجاز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *