Iztirab

Iztirab

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے
کیوں نالۂ حسرت دل مغموم سے نکلے
آنسو نہ کسی دیدۂ مظلوم سے نکلے
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی
یہ میت غم‌ دہلی مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اے تاج محل نقش بہ دیوار ہو غم سے
اے قلعۂ شاہی یہ الم پوچھ نہ ہم سے
اے خاک اودھ فائدہ کیا شرح‌ ستم سے
تحریک یہ مصر‌ و عرب و روم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
سایہ ہو جب اردو کے جنازے پہ ولیؔ کا
ہوں میر تقیؔ ساتھ تو ہم راہ ہوں سوداؔ
دفنائیں اسے مصحفیؔ و ناسخؔ و انشاؔ
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالبؔ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
ہے مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم
کہہ دو کہ انیسؔ اس کا لکھیں مرثیۂ غم
جنت سے دبیرؔ آ کے پڑھیں نوحۂ ماتم
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے
پہلے کوئی سرسیدؔ اعظم کو خبر دے
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی
آزادؔ و نذیرؔ و شررؔ و شبلیؔ و حالیؔ
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
رئیس امروہوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *