Iztirab

Iztirab

اردو

ہماری پیاری زبان اردو 
ہماری نغموں کی جان اردو 
حسین دل کش جوان اردو 
زبان وہ دھل کے جس کو گنگا کے جل سے پاکیزگی ملی ہے 
اودھ کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے جس کے دل کی کلی کھلی ہے 
جو شعر و نغمہ کے خلد زاروں میں آج کوئل سی کوکتی ہے 

اسی زباں میں ہمارے بچپن نے ماؤں سے لوریاں سنی ہیں 
جوان ہو کر اسی زباں میں کہانیاں عشق نے کہی ہیں 
اسی زباں کو چمکتے ہیروں سے علم کی جھولیاں بھری ہیں 

اسی زباں سے وطن کے ہونٹوں نے نعرۂ انقلاب پایا 
اسی سے انگریز حکمرانوں نے خود سری کا جواب پایا 
اسی سے میری جواں تمنا نے شاعری کا رباب پایا 

یہ اپنے نغمات پر اثر سے دلوں کو بیدار کر چکی ہے 
یہ اپنے نعروں کی فوج سے دشمنوں پہ یلغار کر چکی ہے 
ستم گروں کی ستم گری پر ہزارہا وار کر چکی ہے 

کوئی بتاؤ وہ کون سا موڑ ہے جہاں ہم جھجک گئے ہیں 
وہ کون سی رزم گاہ ہے جس میں اہل اردو دبک گئے ہیں 
وہ ہم نہیں ہیں جو بڑھ کے میداں میں آئے ہوں اور ٹھٹھک گئے ہیں 

یہ وہ زباں ہے کہ جس نے زنداں کی تیرگی میں دئیے جلائے 
یہ وہ زباں ہے کہ جس کے شعلوں سے جل گئے پھانسیوں کے سائے 
فراز دار و رسن سے بھی ہم نے سرفروشی کے گیت گائے 

کہا ہے کس نے ہم اپنے پیارے وطن میں بھی بے وطن رہیں گے 
زبان چھن جائے گی ہمارے دہن سے ہم بے سخن رہیں گے 
ہم آج بھی کل کی طرح دل کے ستار پر نغمہ زن رہیں گے 

یہ کیسی باد بہار ہے جس میں شاخ اردو نہ پھل سکے گی 
وہ کیسا روئے نگار ہوگا نہ زلف جس پر مچل سکے گی 
ہمیں وہ آزادی چاہیئے جس میں دل کی مینا ابل سکے گی 

ہمیں یہ حق ہے ہم اپنی خاک وطن میں اپنا چمن سجائیں 
ہماری ہے شاخ گل تو پھر کیوں نہ اس پہ ہم آشیاں بنائیں 
ہم اپنے انداز اور اپنی زباں میں اپنے گیت گائیں 

کہاں ہو متوالو آؤ بزم وطن میں ہے امتحاں ہمارا 
زبان کی زندگی سے وابستہ آج سود و زیاں ہمارا 
ہماری اردو رہے گی باقی اگر ہے ہندوستاں ہمارا 

چلے ہیں گنگ و جمن کی وادی میں ہم ہوائے بہار بن کر 
ہمالیہ سے اتر رہے ہیں ترانۂ آبشار بن کر 
رواں ہیں ہندوستاں کی رگ رگ میں خون کی سرخ دھار بن کر 

ہماری پیاری زبان اردو 
ہماری نغموں کی جان اردو 
حسین، دل کش جوان اردو 

علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *