Iztirab

Iztirab

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو 
بے اختیار تجھ پر آتا ہے پیار مجھ کو 
صیاد کا برا ہو جس کے تغافلوں نے 
کنج قفس میں رکھا فصل بہار مجھ کو 
جاؤں کدھر کو یارو مانند صید خرگہ 
مژگاں نے کر رکھا ہے اس کی شکار مجھ کو 
اس رفتگی پہ مجھ سے کرتا ہے تو تغافل 
ڈانٹے ہے تس پہ الٹا پھر بار بار مجھ کو 
میرا قصور کیا ہے صانع کو چاہئے تھا 
مقدار حسن دیتا صبر و قرار مجھ کو 
فتنہ ہے یا پری ہے جادو ہے یا بلا ہے 
آنکھوں سے یہ کیا ہے کس کی دو چار مجھ کو 
اے مصحفیؔ تصور اس کا جو سامنے ہے 
آتا نہیں شب غم یک دم قرار مجھ کو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *