اسیر پنجہ عہد شباب کر کے مجھے کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے یہ ان کے حسن کو ہے صورت آفریں سے گلہ غضب میں ڈال دیا لا جواب کر کے مجھے وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے میں ان کے پردہ بے جا سے مر گیا مضطرؔ .انھوں نے مار ہی ڈالا حجاب کر کے مجھے
مضطر خیرآبادی