Iztirab

Iztirab

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا 
میں اس کو دیکھتا ہوں جو بدلے میں مل گیا 
جو حسن تو نے شکل کو بخشا وہ بول اٹھا 
جو رنگ تو نے پھول میں ڈالا وہ کھل گیا 
ناکامی وفا کا نمونہ ہے زندگی 
کوچے میں تیرے جو کوئی آیا خجل گیا 
قسمت کے پھوڑنے کو کوئی اور در نہ تھا 
قاصد مکان غیر کے کیوں متصل گیا 
مجھ کو مٹا کے کون سا ارماں ترا مٹا 
مجھ کو ملا کے خاک میں کیا خاک مل گیا 
مضطرؔ میں ان کے عشق میں بے موت مر گیا 
.اب کیا بتاؤں جان گئی ہے کہ دل گیا

مضطر خیرآبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *