Iztirab

Iztirab

اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آ جائے

اس دل کی مصیبت کون سنے جو غم کے مقابل آ جائے 
کس نے یہ کہا تھا تنکے سے وہ بجلی سے ٹکرا جائے 
دنیا کی بہاروں سے آنکھیں یوں پھیر لیں جانے والوں نے 
جیسے کوئی لمبے قصے کو پڑھتے پڑھتے اکتا جائے 
آغاز محبت ہے اور دل یوں ہاتھ سے نکلا جاتا ہے 
جیسے کسی الھڑ کا آنچل سرکا جائے ڈھلکا جائے 
گزرے ہوئے دل کش لمحوں کی بھولی ہوئی یاد ایسی آئی 
جیسے کوئی پیتم پردیسی سوتے میں اچانک آ جائے 
جب پہلے پہل احساس ہوا ہے غم کا تو دل ایسا کانپا 
جیسے کہ دلہن پہلی شب کی آہٹ جو ملے تھرا جائے 
کنگھے سے گھنیری زلفوں میں یوں لہریں اٹھتی جاتی ہیں 
جیسے کہ دھندلکا ساون کا بڑھتا جائے بڑھتا جائے 
ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی 
جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے 
اک آس جو دل کی ٹوٹ گئی پھر دل کی خوشی باقی نہ رہی 
جیسے کہ اندھیرے گھر کا دیا گل ہو تو اندھیرا چھا جائے 
دل ہے کہ نشورؔ اک باجا ہے سینے کے اندر تاروں کا 
جب چوٹ پڑے جھنکار اٹھے جب ٹھیس لگے تھرا جائے 

نشور واحدی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *