Iztirab

Iztirab

اس سے ہی چلتی ہے سانسوں کی روانی لوگو

اس سے ہی چلتی ہے سانسوں کی روانی لوگو
مجھ سے مت چھینو مری آنکھ کا پانی لوگو
پارساؤی کی گواہی تو نہ مانگو اس سے
تنہا بیوہ نے گزاری ہے جوانی لوگو
ہم بیابانوں کے عادی تھے کہیں پر نہ بسے
دشت تنہائی میں کی نقل مکانی لوگو
آگہی کرب کے امکان بڑھا دیتی ہے
مت بتاؤ مجھے انجام کہانی لوگو
اس کی تصویر کو چپکے سے جلایا میں نے
وہ تھی کم ظرف محبت کی نشانی لوگو
اک نیا خواب میں پلکوں پہ سجاؤں کیسے
دل میں باقی ہے ابھی یاد پرانی لوگو
ہم کہ سادہ رہے جدت میں نہ ڈھالا خود کو
.ہم کو آئے ہی نہیں طور زمانی لوگو

عاصمہ فراز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *