Iztirab

Iztirab

اس قدر ڈوبا ہوا دل درد کی لذت میں ہے

اس قدر ڈوبا ہوا دل درد کی لذت میں ہے 
تیرا عاشق انجمن ہی کیوں نہ ہو خلوت میں ہے 
جذب کر لینا تجلی روح کی عادت میں ہے 
حسن کو محفوظ رکھنا عشق کی فطرت میں ہے 
محو ہو جاتا ہوں اکثر میں کہ دشمن ہوں ترا 
دل کشی کس درجہ اے دنیا تری صورت میں ہے 
اف نکل جاتی ہے خطرے ہی کا موقعہ کیوں نہ ہو 
حسن سے بیتاب ہو جانا مری فطرت میں ہے 
اس کا اک ادنیٰ کرشمہ روح وہ اتنا عجیب 
عقل استعجاب میں ہے فلسفہ حیرت میں ہے 
نور کا تڑکا ہے دھیمی ہو چلی ہے چاندنی 
.ہل رہا ہے دل مرا مصروف وہ زینت میں ہے

جوش ملیح آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *