Iztirab

Iztirab

اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے

اس کشاکش میں یہاں عمر رواں گزرے ہے 
جیسے صحرا سے کوئی تشنہ دہاں گزرے ہے 
اس طرح تلخیٔ ایام سے بڑھتی ہے خراش 
جیسے دشنام عزیزوں پہ گراں گزرے ہے 
اس طرح دوست دغا دے کے چلے جاتے ہیں 
جیسے ہر نفع کے رستے سے زیاں گزرے ہے 
یوں بھی پہنچے ہیں کچھ افسانے حقیقت کے قریب 
جیسے کعبہ سے کوئی پیر مغاں گزرے ہے 
ہم گنہ گار جو اس سمت نکل جاتے ہیں 
ایک آواز سی آتی ہے فلاں گزرے ہے 

شورش کاشمیری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *