Iztirab

Iztirab

اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہیے

اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہیے 
قیس لیلیٰ کا ہے لیلیٰ چاہیے 
اب جو کچھ کرنا ہے کرنا چاہیے 
آج ہی سے فکر فردا چاہیے 
ان بتوں سے دل لگانے کے لیے 
سچ ہے پتھر کا کلیجہ چاہیے 
دیکھنا ان کا تو قسمت میں نہیں 
دیکھنے والے کو دیکھا چاہیے
وہ نہیں آئے تو وعدے پر نہ آئیں 
اے اجل تجھ کو تو آنا چاہیے
مجھ سے نفرت ہے تو نفرت ہی سہی 
چاہیے غیروں کو اچھا چاہیے 
خلد والوں کو دکھانے کے لیے 
اک ترے کوچہ کا نقشہ چاہیے 
آ کے اب جاتا کہاں ہے تیر ناز 
تجھ کو میرے دل میں رہنا چاہیے 
توڑ کر بیدمؔ بت پندار کو 
.دیر کو کعبہ بنانا چاہیے

بیدم شاہ وارثی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *