Iztirab

Iztirab

اس گلی کے موڑ پر

اس گلی کے موڑ پر اک عزیز دوست نے 
میرے اشک پونچھ کر 
آج مجھ سے یہ کہا 
یوں نہ دل جلاؤ تم 
لوٹ مار کا ہے راج 
جل رہا ہے کل سماج 
یہ فضول راگنی 
مجھ کو مت سناؤ تم 
بورژوا سماج ہے 
لوٹ مار چوریاں اس کا وصف خاص ہے 
اس کو مت بھلاؤ تم 
انقلاب آئے گا 
اس سے لو لگاؤ تم 
ہو سکے تو آج کل مال کچھ بناؤ تم 
کھائی سے نکلنے کی آرزو سے پیشتر 
دیکھ لو ذرا جو ہے دوسری طرف ہے گڑھا ہے 
آج ہیں جو حکمراں ان سے بڑھ کے خوفناک ان کے سب رقیب ہیں 
دندنا رہے ہیں جو لے کے ہاتھ میں چھرا 
شکر کا مقام ہے 
میری مسخ لاش آپ کو کہیں ملی نہیں 
اک گلی کے موڑ پر 
میں نے پوچھا واقعی 
سن کے مسکرا دیا کتنی دیر ہو گئی 
لیجئے میں اب چلا اس کے بعد اب کیا ہوا 
کھڑکھڑائیں ہڈیاں 
.اس گلی کے موڑ سے وہ کہیں چلا گیا

فہیمدہ ریاض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *