Iztirab

Iztirab

اشارے کیا نگہ ناز دل ربا کے چلے

اشارے کیا نگہ ناز دل ربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے
طلب سے عار ہے اللہ سے فقیروں کو
کہیں جو ہو گیا پھیرا صدا سنا کے چلے
پکارے کہتی تھی حسرت سے نعش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
مثال ماہی بے آب موجیں تڑپا کیں
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کارگاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آ کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
انیسؔ دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
.چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

میر ببر علی انیس

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *