Iztirab

Iztirab

اعتراف

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو 

میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو 
چمن دہر میں روح چمن آرائی ہو 
طلعت مہر ہو فردوس کی برنائی ہو 
بنت مہتاب ہو گردوں سے اتر آئی ہو 

مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے 
میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے 

خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے 
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے 
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے 
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے 

حسن نے جب بھی عنایت کی نظر ڈالی ہے 
میرے پیمان محبت نے سپر ڈالی ہے 

ان دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا 
سر پہ سرشارئ عشرت کا جنوں طاری تھا 
ماہ پاروں سے محبت کا جنوں طاری تھا 
شہریاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا 

بستر مخمل و سنجاب تھی دنیا میری 
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دنیا میری 

جنت شوق تھی بیگانہ آفات سموم 
درد جب درد نہ ہو کاوش درماں معلوم 
خاک تھے دیدۂ بیباک میں گردوں کے نجوم 
بزم پرویں تھی نگاہوں میں کنیزوں کا ہجوم 

لیلیٰ ناز برافگندہ نقاب آتی تھی 
اپنی آنکھوں میں لیے دعوت خواب آتی تھی 

سنگ کو گوہر نایاب و گراں جانا تھا 
دشت پر خار کو فردوس جواں جانا تھا 
ریگ کو سلسلۂ آب رواں جانا تھا 
آہ یہ راز ابھی میں نے کہاں جانا تھا 

میری ہر فتح میں ہے ایک ہزیمت پنہاں 
ہر مسرت میں ہے راز غم و حسرت پنہاں 

کیا سنوگی مری مجروح جوانی کی پکار 
میری فریاد جگر دوز مرا نالۂ زار 
شدت کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار 
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار 

وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں 
اب میں وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں 

میرے سائے سے ڈرو تم مری قربت سے ڈرو 
اپنی جرأت کی قسم اب میری جرأت سے ڈرو 
تم لطافت ہو اگر میری لطافت سے ڈرو 
میرے وعدوں سے ڈرو میری محبت سے ڈرو 
اب میں الطاف و عنایت کا سزا وار نہیں 
میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں 

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

اسرار الحق مجاز

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *