Iztirab

Iztirab

اغیار چھوڑ مُجھ سیں اگر یار ہووے گا

اغیار چھوڑ مُجھ سیں اگر یار ہووے گا 
شاید کے یار محرم اسرار ہووے گا 
بوجھے گا قدر مُجھ دِل آشفتہ حال کی 
پھاندے میں زلف کہ جُو گرفتار ہووے گا 
بے فکر میں نہیں کے صنم مست خواب ہے 
کیا کیا بلا کرے گا جُو بیدار ہووے گا 
پنہاں رکھا ہوں درد کوں لوہو کی گھونٹ پی 
کہتا نہیں کسی سیں کے اظہار ہووے گا 
بزم جنُوں میں ساغر وحشت پیا جو کوئی 
غفلت سیں عقل و ہوش کی ہشیار ہووے گا 
تری بھنووں کی تیغ کہ پانی کوں دیکھ دِل 
اٹکا ہے اس سبب کے ندی پار ہووے گا 
رنگیں نہ کر توں دِل کا محل نقش عیش سیں 
غم کہ تبر سیں مار کے مسمار ہووے گا 
برجا ہے یار مُجھ پہ اگر مہربان ہے 
بلبل پہ گُل بغیر کسے پیار ہووے گا 
جاتا نہیں ہے یار کی شمشیر کا خیال 
معلوم یوں ہوا کے گلے ہار ہووے گا 
انکار مجھ کوں نیں ہے تیری بندگی ستی 
یاں کیا ہے بلکہ حشر میں اقرار ہووے گا 
مُجھ پاس پھر کر آوے اگر وہ کتاب رو 
مکتب میں دِل کہ درس کا تکرار ہووے گا 
صحن چمن میں دیکھ ترے قد کی راستی 
ہر سرد تُجھ سلام کوں خم دار ہووے گا 
اِس چشم نیم خواب کی دیکھے اگر بہار 
نرگس چمن میں تختۂ دیوار ہووے گا 
اِس زلف عنبریں سیں جُو یک تار جھڑ پڑے 
ہر خوب رو کوں طرۂ دستار ہووے گا 
اے جان مرے پاس سیں یک دم جدا نہ ہو 
جینا تیرے فراق میں دشوار ہووے گا 
رکھتا ہے گرچہ آئنہ فولاد کا جِگر 
تیر نگہ کہ سامنے لاچار ہووے گا 
مت ہو شب فراق میں بے تاب اے سراجؔ 
.اُمید ہے کے صبح کوں دیدار ہووے گا 

سراج اورنگ آبادی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *